Orhan

Add To collaction

بھیگی پلکوں پر

کار ڈرائیو کرتے ہوئے اعوان نے ساتھ بیٹھی ماہ رخ کو دیکھا تھا جس کے چہرے پر خوبصورت مسکراہٹ تھی  اس کی مسکراہٹ نے اس کے چہرے کو روشن کر رکھا تھا۔ تراشیدہ بال ریشم کے لچھوں کی طرح چہرے اور شانوں پر بکھرے ہوئے تھے۔ وہ بہت دل فریب لگ رہی تھی۔ اعوان بہت آہستگی سے کار ڈرائیو کر رہا تھا۔

”ایک بات پوچھوں آپ سے اعوان!“ اس نے مسکرا کر اجازت طلب کی۔

”کیوں نہیں! آپ ابھی تک مجھے غیر سمجھ رہی ہیں؟ ہر بات سے پہلے اجازت غیروں سے لی جاتی ہے  دو ہفتے ہو گئے ہیں ہمیں ملتے ہوئے۔“ پھر ایک دم کچھ گھبرا کر گویا ہوا۔ ”میرا مطلب ہے… آپ کو ڈراپ کرتے ہوئے اور آپ آج بھی پہلے کی ہی طرح اجنبی ثابت ہو رہی ہیں۔ یہ اچھی بات نہیں ہے ماہ رخ!“

”آپ کی یہ سوچ غلط ہے  اگر میں آپ کو اجنبی سمجھتی تو آپ کے ساتھ روز کیوں آتی؟“ ماہ رخ نے اطمینان سے کہا۔
(جاری ہے)

”اجنبی نہیں سمجھتی ہیں تو پھر کیا سمجھتی ہیں؟“ اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے وہ دھیمے سے گویا ہوا۔ ماہ رخ نے کئی لمحوں تک اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالی تھیں۔ اس کی براؤن آنکھوں میں اسے اپنا ہی عکس نظر آ رہا تھا۔ وہ مسکرا کر نظریں جھکا گئی۔

”ارے  شرما گئیں ! تمہارا ہی عکس ہے میری آنکھوں میں…“ اس کو نگاہیں جھکاتے دیکھ کر وہ شوخی سے گویا ہوا۔

”آنکھوں میں عکس ہونے سے کیا ہوتا ہے؟“ وہ آہستگی سے بولی۔ ”اصل عکس تو دل میں ہوتا ہے اعوان صاحب!“

”آنکھیں بھی تو دل کا آئینہ ہوتی ہیں۔ ہمارے دل میں اترنے والی ایک خاص تصویر عکس بن کر آنکھوں میں اتر آتی ہے۔“ وہ جذباتی انداز میں بولا۔

”نامعلوم کیسی باتیں کر رہے ہیں آپ!“ اس نے سنجیدہ لہجے میں کہتے ہوئے رخ موڑ کر کھڑکی سے باہر دیکھنا شروع کر دیا تھا۔
اس کا دل خوشی سے بے قابو ہونے لگا تھا۔ بہت محتاط طریقے سے اس نے یہ گیم کھیلا تھا۔ وہ اعوان کو اسی راہ پر لانا چاہ رہی تھی جس پر وہ بآسانی چل پڑا تھا اور اس کے لہجے کی بے قراری و اضطراب ظاہر کر رہا تھا کہ وہ اپنے مقصد میں ناکام نہیں ہوئی ہے منزل قریب نہ سہی مگر دور بھی نہ رہی تھی۔

”ماہ رخ! آپ کو میری بات بری لگی…؟“ اس کی خاموشی اور رخ پھیر کے بیٹھنے سے وہ بے حد متوحش ہو کر گویا ہوا تھا۔
وہ قصداً خاموش رہی۔ ”پلیز! کچھ تو کہیں… آپ کی خاموشی مجھے پریشان کر رہی ہے ماہ رخ!“ اس نے ڈرائیونگ مزید آہستہ کر دی  وہ سخت مضطرب ہو گیا تھا۔

”میں آپ کی ان باتوں سے کیا سمجھوں… کیا کہوں؟“ اس نے ایک نگاہ اس کی طرف دیکھا پھر چہرہ جھکا کر گویا ہوئی۔

”آپ کیا سمجھ رہی ہیں  میں جو آپ کا ڈرائیور بنا ہوا ہوں تو یہ کسی انسانی ہمدردی یا محض اس خیال سے کہ آپ جویریہ کی بہت اچھی دوست ہیں؟ کیا اس دور میں کوئی ایسا کر سکتا ہے  کسی مطلب کے بغیر…؟ میں نے جویریہ کیلئے کبھی یہ ذمے داری قبول نہیں کی  وہ شوفر کے ہمراہ آتی جاتی ہے اگر میں یہاں آپ کیلئے آ رہا ہوں تو…“

”تو کیا مطلب ہے آپ کا! کیا غرض پوری کرنا چاہتے ہیں مجھ سے…؟“ وہ اس کی بات کاٹ کر حیران لہجے میں گویا ہوئی۔

”کوئی مطلب نہیں ہے اور نہ ہی کوئی غرض۔“ اس نے اس کی مطلوبہ جگہ پر کار روکتے ہوئے جذباتی لہجے میں کہا تھا اور وہ جب اتر گئی تو دھیمے سے کہا۔

”مجھے تم سے محبت ہے  بے حد محبت!“ وہ کار تیزی سے آگے بڑھا لے گیا۔

###

فیاض تھکے ہوئے گھر میں داخل ہوئے تھے کہ لاؤنج میں طغرل سے ملاقات ہو گئی۔ پچھلے دنوں وہ بزنس اور صباحت کی فرمائش رقم کے حصول اور پھر دیگر کاموں میں اتنے مصروف رہے تھے کہ اس سے بھی ملنے کا موقع نہ مل سکا تھا۔
اب وہ اس کو دیکھ کر اس کے قریب ہی بیٹھ گئے۔

”بہت مصروف رہنے لگے ہیں انکل! اس ویک اینڈ آپ سے ملاقات ہی نہیں ہوئی ہے اور نہ ہی آپ سائٹ پر آئے۔“ طغرل نے مسکراتے ہوئے شکایت کی۔

”کبھی کبھی ایسا بھی ہو جاتا ہے  مصروفیات بڑھ جاتی ہیں میری۔“

”میں نے آپ کو پہلے بھی کہا تھا اور اب بھی کہہ رہا ہوں۔ تعمیراتی کام بہت تیزی سے ہو رہا ہے فیکٹری کا  انشاء اللہ بہت جلد مکمل ہو جائے گا اور اس کے ہیڈ آپ ہوں گے  آپ پارٹنر شپ چھوڑ دیجئے۔

”بیٹا! میں کس طرح اپنا بزنس چھوڑ سکتا ہوں؟ پھر پارٹنر شپ کے علاوہ عابدی سے میری بہت اچھی فرینڈ شپ ہے  دونوں ہی چھوڑنا میرے لئے ممکن نہیں ہے مگر جب بھی آپ کو میری مدد کی ضرورت ہو تو بلا جھجک مجھ سے کہئے گا  میں کبھی آپ کو مایوس نہیں کروں گا۔“ فیاض اس کے شانے پر ہاتھ رکھے اپنے بے تکلف انداز میں اس سے کہہ رہے تھے اور دوسری طرف کھڑکی سے کان لگائے ان کی باتیں سنتی ہوئی صباحت جل بھن کر خاک ہو گئی تھیں پھر ان سے وہاں رکا نہیں گیا  غصے سے بھری وہ اپنے کمرے میں آ گئیں جہاں عادلہ جیولری پھیلائے بیٹھی تھی۔

”آپ کا موڈ کیوں آف ہے مما! اب کیا ہوا ہے؟“ عادلہ نے ماں کے بگڑے تیور دیکھ کر سوال کیا تھا۔ جواباً وہ کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد گویا ہوئی۔

”فیاض کبھی بھی اپنی خود داری کا قفل ہونٹوں سے نہیں کھولیں گے  خواہ کچھ بھی ہو جائے۔ کتنے اچھے موقعے گنوا دیتے ہیں اور دکھ بھی نہیں ہوتا ان کو۔“

”کیا پھر طغرل نے پاپا کو کوئی آفر کی ہے؟“ وہ چونک کر گویا ہوئی۔

”ہاں… لیکن فیاض نے صاف انکار کر دیا  بہت عزیز ہے ان کو عابدی صاحب کی دوستی اور اپنا بزنس جو صرف اب نقصان دے رہا ہے اور کچھ نہیں۔“

”آپ خود بات کیوں نہیں کر لیتی ہیں؟ پاپا کبھی بھی اپنی پریشانی کسی سے شیئر نہیں کریں گے  یہ بات تو پکی ہے۔ آپ ہی کچھ کریں تو اچھا ہے۔“ عادلہ نے ان کو مشورہ دیا۔

”یہ سب اتنا آسان ہوتا تو میں کب کی کر چکی ہوتی مگر یہاں بھی مسئلہ تمہارے باپ کی ناک کا ہے وہ پہلے ہی وارننگ دے چکے ہیں کہ ان کے بزنس کے متعلق بات بھائی جان  بھابی یا طغرل وغیرہ کو معلوم ہوئی تو میری اس گھر میں جگہ نہ رہے گی اور میں جانتی ہوں۔
“ وہ آہ بھر کر گویا ہوئیں۔ ”فیاض نے اپنے دل میں نہ سہی  اپنے گھر میں تو جگہ دے رکھی ہے۔“

”آپ دکھی کیوں ہیں؟ پاپا کو پاپا کی مرضی پر چھوڑ دیں اور ویسے بھی وہ ہمیں کسی شے کی کمی ہونے نہیں دیتے ہیں  ہم اپنی زندگی اپنی مرضی سے اور مزے سے گزار رہے ہیں تو پھر ہمیں فکر کرنے کی کیا ضرورت ہے۔“

”بات تو تم بڑی سمجھ داری کی کر رہی ہو مگر میں آگے کی سوچتی ہوں  اگر فیاض کا کاروبار بالکل ہی ٹھپ ہو گیا تو پھر ہم کس طرح ایسی زندگی گزاریں گے؟ کم پیسوں میں ہم کبھی گزارا نہیں کر سکتے بھئی!“ وہ ایک جھرجھری سی لے کر گویا ہوئیں۔

”فکر مت کریں مما! اگر ایسا ہو بھی گیا تو پاپا ہم کو کوئی احساس نہیں ہونے دیں گے  وہ کسی نہ کسی طرح ہمیں پیسہ دیتے رہیں گے۔“

”میں جا کر ڈرائیور کو بیوٹیشن کو لینے بھیجتی ہوں  وہ آ کر عائزہ کے مہندی لگا دے گی  صبح تک رنگ خوب نکھر جائے گا مہندی کا۔“ بیٹی کی باتوں سے ان کو بہت تسکین ملی تھی۔ کچھ دیر پہلے کی چڑچڑاہٹ اور غصہ وہ بھول کر پھر سے خوش و مطمئن نظر آ رہی تھیں۔

”پاپا ابھی تک اپنے روم میں کیوں نہیں آئے؟“

”خبر مل گئی ہو گی لاڈلی بیٹی کے گرنے کی  وہیں ہوں گے اس کے پاس… طغرل تو اتنی دیر بیٹھنے والا نہیں ہے۔“ وہ شدید بے زاری سے کہنے لگی تھی  عادلہ نے ان سے کہا۔

”مما! طغرل پری میں دلچسپی لے رہا ہے۔ دیکھا تھا آج آپ نے کس طرح اس کو لے کر آیا تھا  کتنی محبت سے اس کو سہارا دیئے ہوئے تھا؟“ عادلہ تو گویا انگاروں پر لوٹ رہی تھی  اس کو خطرہ لاحق ہو گیا تھا۔

”ہاں  دیکھ رہی ہوں اس کو۔“ وہ سخت لہجے میں بولیں۔

”کوئی حل بھی تو بتائیں؟ کہیں ایسا نہ ہو پری اس کو جال میں پھنسا لے اور میں منہ دیکھتی رہ جاؤں اور اگر ایسا ہوا تو میں مر جاؤں گی۔“ اس کے انداز میں عجیب سی وحشت و سرکشی امڈ آئی تھی۔

”مریں تمہارے دشمن میری بچی! آئندہ ایسی بات مت کرنا  اپنی بچیوں کی وجہ سے تو میں زندہ ہوں۔
“ انہوں نے عادلہ کو سینے سے لگاتے ہوئے کہا۔

###

فیاض صاحب اندر داخل ہوئے تو اماں جان نماز کے بعد دعا مانگ رہی تھیں۔ شوز وہ پہلے ہی اتار چکے تھے  ان کے قریب وہ بیٹھ گئے سر جھکا کر۔ اماں جان نے یہ کمرا خصوصاً اپنی عبادت کیلئے اوّل روز سے ہی مختص کیا ہوا تھا۔ گھر کے دوسرے لوگ بھی اسی کمرے میں آکر عبادت کیا کرتے تھے  یہاں آف وہائٹ کلر کے پردے تھے  کارپٹ پر وائٹ چاندنی بچھی ہوئی تھی جس کے اطراف میں آف وائٹ ہی گاؤ تکیے اور فلور کشنز رکھے ہوئے تھے اور سائیڈ میں اماں بی کی نماز کی چوکی تھی  اس سادہ سے کمرے میں نور ہی نور چمکتا تھا۔
یہاں ایک طمانیت بھری خاموشی تھی  دل کو سکون دینے والا سکوت تھا  فیاض صاحب کو معلوم ہی نہ ہو سکا تھا کہ وہ کب بیٹھے بیٹھے ہی نیند کی وادی میں گم ہو گئے تھے۔ آنکھ کھلی تو ان کا سر اماں کی شفیق گود میں تھا۔ وہ دعائیں پڑھ کر ان پر پھونک رہی تھیں۔ فیاض صاحب شرمندہ سے اٹھ کر بیٹھ گئے۔

”السلام علیکم! مجھے معلوم ہی نہ ہو سکا  کب آنکھ لگ گئی۔

”وعلیکم السلام! سارے دن کے تھکے ہوئے ہوتے ہو بیٹا! خود کو مشین بنا لیا ہے تم نے  کچھ اپنی صحت کے بارے میں بھی سوچو  دن بدن کمزور ہوتے جا رہے ہو میرے بچے!“ اماں جان کی نگاہوں سے ان کی محنت اوجھل نہ تھی  وہ جانتی تھیں اپنی عزت اور وقار کو قائم رکھنے کیلئے انہیں کتنی جدوجہد کرنی پڑ رہی ہے  وہ کھانا کم اور فکریں زیادہ کھانے لگے تھے۔
اس بات کا احساس ان کو اور پری کو تھا۔ صباحت اور ان کی بیٹیاں تو جان کر بھی انجان بنی رہتی تھیں۔ تندرستی ہزار نعمت ہے۔ تندرستی ہے تو سب کچھ ہے ورنہ کچھ بھی نہیں۔

”اماں جان! آپ کی دعائیں شامل حال ہیں اور جن کے ساتھ ماں کی دعائیں ہوتی ہیں وہ تمام مشکلات میں سرخرو ہو جاتے ہیں۔“ وہ احترام و محبت سے اماں کا ہاتھ تھام کر گویا ہوئے۔
”آپ میرے لئے دعائیں کرتی رہا کریں۔ اماں جان! آپ کی دعاؤں کی ہر لمحہ ضرورت ہے بہت ضرورت ہے۔“ وہ آرزدگی سے گویا ہوئے۔

”فیاض! کوئی بڑی پریشانی ہے کیا! بتا مجھے  کیوں اتنا پریشان ہے؟“ وہ ان کی آنکھ میں نمی دیکھ کر تڑپ سی اٹھی تھیں۔

”ارے اماں! آپ تو گھبرا گئیں… میں تو یوں ہی کہہ رہا تھا  ایسی تو کوئی بات نہیں ہے جو آپ پریشان ہوں۔
“ وہ مسکراتے ہوئے ان کو تسلی دینے لگے۔ اماں کی بوڑھی آنکھیں عینک کے پیچھے سے ان کے چہرے کو دیکھ رہی تھیں۔

غم… تفکر… اداسی… بہت کچھ تھا ان آنکھوں میں… وہ آنکھیں جو کبھی مسکراتی تھیں جو شخص کبھی بے حد شوخ و کھلنڈر ہوا کرتا تھا  اب اس کو دیکھ کر محسوس ہی نہ ہوتا تھا وہ کبھی قہقہہ لگا کر ہنسا بھی ہوگا۔ محبت پاکر بھی انسان بدل جاتا ہے اور محبت کھو کر تو بالکل بدل جاتا ہے۔
اماں اندر ہی اندر ایک سرد آہ بھر کر رہ گئی تھیں۔

”کیا ابھی سے بیٹی کی جدائی کا خیال پریشان کر رہا ہے فیاض! ابھی تو وہ رخصت نہیں ہو رہی ہے۔“ انہوں نے مسکرا کر ماحول کو بدلنا چاہا۔

”نہیں اماں جان! اس حقیقت کو تو میں تسلیم کر چکا ہوں کہ ان چڑیاؤں کو ایک دن بابل کا آنگن چھوڑ دینا ہے ہاں البتہ…“ وہ گہرا سانس لے کر ایک دم سے خاموش ہو گئے تھے۔
”آپ کی خوشی اور حکم پر میں نے عائزہ کیلئے ہامی تو بھر لی ہے مگر لگتا ہے میں نے پری کے ساتھ اچھا نہیں کیا  اس کی حق تلفی کی ہے۔“

”یہ پہلے کی باتیں تھیں  اب وقت ہی بدل گیا ہے پھر سچ بات تو یہ ہے کہ لڑکیوں کیلئے اچھے بر بڑی مشکل سے ملتے ہیں  اس لئے اب چھوٹا بڑا کوئی نہیں دیکھتا ہے صرف فرض ادا کرنے کی لگتی ہے۔“

”لیکن… وہ کہیں یہ نہ سوچے اس کی ماں نہیں ہے تو کوئی اس کی کیئر کرنے والا ہے  اس کو نظر انداز کر دیا گیا ہے؟“ وہ دل کی بات زبان پر لے آئے تھے جو سینے پر بوجھ بنی ہوئی تھی۔

”نہیں نہیں… وہ بچی ایسی نہیں ہے  بہت اعلیٰ سوچ اور بڑے دل کی مالک ہے وہ لڑکی! پھر تمہارا خون ہے وہ  بھلا کم ظرف کیسے ہو سکتا ہے؟ اس کو تو اتنی خوشی ہے عائزہ کے رشتے کی  ملازماؤں کے ہوتے ہوئے بھی وہ گھر کی جھاڑ پونچھ میں لگی رہی ہے اگر اس کو خوشی نہیں ہوتی تو وہ کیوں کرتی سب، صفائی کرنے جنون میں ہی شام میں گر بھی گئی ہے وہ۔“

”گر گئی وہ… مگر کہاں سے… اس کے کوئی چوٹ تو نہیں آئی؟“ وہ ایک دم مضطرب ہو کر کھڑے ہو گئے تھے۔ ”کہاں ہے وہ…“ وہ کہتے ہوئے اماں جان کے کمرے میں آئے تھے جہاں پری بے خبر سو رہی تھی اور سوتے ہوئے بھی چہرے پر درد کے تاثرات نمایاں تھے۔ وہ خاموش کھڑے اس کے چہرے کو دیکھتے رہے تھے۔

   2
0 Comments